جن لوگوں کو شام میں حزب الله کا کردار دیکھ کر مروڑ اٹھ رہے ہیں ان کی
خدمت میں عرض ہے کہ حزب الله شام کے
معاملے میں 26 ماہ بعد عملی طور پر
وارد ہوئی_ اس سے پہلے غیر ملکی مسلح افراد نے شام میں گھس کر سنی عوام کو
مشرک، شیعہ کو کافر، عیسائی اور دروز قبائل کو اسدی کتا کہہ کر بےدریغ قتل
عام کیا، انکی مساجد اور مذہبی عبادت خانوں کو جلایا، عورتوں/بچوں پر ظلم
کیا، یہ بے غیرت لوگ خاموش رہے_ لبنان کے تکفیری چوہے الاسیر کا لبنان کے
شہر القصیر پر قبضہ کرنا اور وہاں جا کر تصویریں کھنچوانا کس
کو یاد نہیں جب تکفیری اپنے پیجز اور پروفائلز پر اسکی تصویر لگا رہے
تھے؟؟ ادھر اسرائیل کے قریب ہونے کی وجہ سے مسلح تکفیری عناصر شام میں سیدہ
زینب(س) کے روضۂ مبارک کے قریب ہونے لگے تو انہوں نے ویڈیو پیغامات بھیجے
کہ اب اس مرکز کو تباہ کیا جاۓ گا، اور ساتھ ہی مسجد حضرت عمار یاسر(رض)
اور روضۂ حضرت حجر ابن عدی(رض) کو ویران کیا، جماعت اسلامی بھی خاموش رہی_
شام کی حکومت کے دشمن شام میں کبھی بھی التحریر اسکوائر جیسا لاکھوں کا
اجتماع نہ کر سکے تو باہر کے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے لوگوں
پر مظالم کر کے ویڈیوز بنائیں اور شامی فوج کے نام سے نشر کیں جنکی حقیقت
اس بات پر غور کرنے سے ہی معلوم ہو جاتی ہے کہ اگر یہ ظلم شامی فوج نے کیا
تو ویڈیوز بنانے والے کو تین سال سے کیوں نہ پکڑ سکی؟؟_ ایسے حالات میں
دنیا بھر کے شیعہ اور سنی عوام سے توقع رکھنا کہ وہ تکفیریوں کے خلاف عملی
قدم اٹھانے کے بجاۓ صرف زبانی جمع خرچ کریں گے، جیسا فلسطین کے مسئلے پر
جماعت اسلامی ساٹھ سال سے کر رہی ہے، تو یہ حماقت ہے_ حزب الله کی طرف سے
حضرت زینب(س) کے روضہ کی حفاظت اور حضرت خالد بن ولید(رض) کے روضہ کو
تکفیریوں کے قبضے سے صحیح و سالم آزاد کروانا ایسا ہی کارنامہ ہے جیسا
فلسطین کے سنی عوام کیلئے اسرائیل سے ٹکرانا اور اپنے سینکڑوں کارکنوں کی
قربانی دینا اور اسرائیلی جیلوں میں تشدد برداشت کرنا_ جبکہ جماعت اسلامی جیسوں کا ایک بھی کارکن نہ کبھی فلسطین میں شہید ہوا نہ اسرائیل کا قیدی بنا
شام میں جاری امریکا اور اس کے مخالفوں میں علاقائی لڑائی کو شیعہ سنی
منافرت کا رنگ دینے والی جماعت اسلامی کے سوشل میڈیا ونگ کے ملازموں کے
نام:-
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم نے کچھ عرض کیا تو شکایت ہو گی
ثمینہ فاروقی