Thursday, February 2, 2017

کرم ایجنسی : اسلحہ جمع نہ کرانے کی وجہ

0 comments

وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے کرم ایجنسی میں حکومت کی طرف سے لوگوں کو غیر مسلح کرنے کےلیے دی گئی مہلت کے اختتام پر طوری بنگش قبائل نے اعلان کیا ہے کہ غیر قانونی اسلحہ اس وقت تک انتظامیہ کے حوالے نہیں کیا جائے گا جب تک ان کی تحفظ کی مکمل طور پر ضمانت فراہم نہیں کی جاتی۔

کرم ایجنسی میں طوری بنگش قبائل کی نمائندہ تنظیم انجمن حسنیہ کے سیکرٹری حاجی فقیر حسین نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کرم ایجنسی بالخصوص بالائی کرم کے علاقوں میں آباد قبائل نے ہتھیاروں کو اپنی حفاظت کے لیے رکھا ہوا ہے اور انھیں کبھی حکومت یا ریاستی اداروں کے خلاف استعمال نہیں کیا۔

انھوں نے کہا کہ چند دن پہلے کرم ایجنسی کے صدر مقام پاڑہ چنار میں بازار کے اندر ایک بڑا دھماکہ ہوا جس میں درجنوں بے گناہ افراد مارے گئے اور جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علاقے میں حالات ایسے نہیں کہ شرپسند عناصر کا خاتمہ ہوچکا ہے۔

ان کے مطابق 'ہم نے ہتھیاروں کو نمائش یا مشغلے کےلیے نہیں رکھا ہوا ہے بلکہ ہم تو اپنے بچوں، مٹی، نام اور عزت کو بچانےخاطر یہ سب کچھ کررہے ہیں ۔‘

حاجی فقیر حسین نے مزید بتایا کہ اس سلسلے میں قبائل کے مشران پر مشتمل ایک 40 رکنی جرگہ بھی ہوا تھا جس نے مقامی انتظامیہ اور سکیورٹی فورسز کے نمائندوں سے بات چیت کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا کہ اگر حکومت ان کو تحفظ کی ضمانت دیتی ہے تو وہ ان کی بات ماننے کےلیے ہر وقت تیار ہوگی۔

انھوں نے کہا کہ جرگے نے چند دن پہلے پاڑہ چنار کے دورے پر آئے ہوئے برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور کور کمانڈر پشاور کو بھی اپنے خدشات سے آگاہ کیا تھا۔

ادھر حکومت نے کوہاٹ ڈویژن اور ملحقہ قبائلی علاقے اورکزئی ایجنسی میں بھی غیر قانونی ہتھیاروں کے خلاف مہم کا آغاز کیا ہے تاہم ابھی تک صرف کوہاٹ کے بعض علاقوں میں لوگوں نے رضاکارانہ طورپر غیر لائسنس شدہ اسلحہ مقامی انتظامیہ کے حوالے کیا ہے۔

کوہاٹ پولیس کے مطابق یہ مہم قومی ایکشن پلان کے تحت شروع کی گئی ہے تاکہ علاقے کو غیر قانونی ہتھیاروں سے پاک کیا جائے۔ یکم جنوری سے شروع کی گئی اس مہم میں عمومی طورپر ابھی تک انتظامیہ کو کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔

یاد رہے کرم ایجنسی میں 2007 میں طوری بنگش قبائل نے  طالبان اور دوسرے دہشتگرد تنظیموں سے طویل جنگ کی اور ان کو اپنے علاقوں سے پسپا کیا جس کے باعث پاراچنار اور اس کے ملحقہ علاقوں کے لوگوں کے لئے پانچ سال تک ٹل پاراچنار روڈ بند رہا اور یہاں کے لوگ افغانستان سے ہوکر پاکستان پشاور پہنچتے تھے.

خیال رہے کرم ایجنسی کے طوری بنگش قبائل ہمیشہ سے پاکستانی حکومت اور پاک فوج کا ساتھ دیا،  طالبان اور دوسرے دہشت گرد تنظیموں سے خطرے کے باوجود طوری بنگش قبائل نے پاک فوج کی جانب سے آپریشن ضرب عضب کی مکمل حمایت کی.  طالبان سمیت دیگر دہشت گرد تنظیموں سے لڑنے اور پاک فوج کی حمایت کرنے پر یہ قبائل کئی عرصے سے دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں،  پچھلے دس سالوں میں پاراچنار شہر میں اٹھ سے زائد بڑے دھماکے ہوئے.

کرم ایجنسی کے طوری بنگش قبائل کا اسلحہ جمع نہ کرانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں کے لوگ اب تک دہشت گردوں کے حملے کا نشانہ بن رہے ہیں اور دوسری طرف کرم ایجنسی کا سرحد افغانستان کے تین صوبوں سے ملتا ہے وہاں سے بھی طوری بنگش قبائل پر حملے ہوتے رہتے ہیں اور حکومتی اقدامات کے باوجود یہاں کے لوگ خود کو محفوظ تصور نہیں کرتے.

اکیس جنوری 2017 ہفتے کے روز پارا چنار میں ہونے والا خود کش دھماکہ ایک متوقع حادثہ تھا۔ در اصل حلب اور موصل میں شدت پسندوں کی پسپائی کے بعد یہ امکان موجود تھا کہ شدت پسند پاراچنار کا رخ کریں گے۔ مقام افسوس ہے کہ اس دوران حکومتی اہلکاروں نے شدت پسندوں کا راستہ روکنے کے بجائے مقامی لوگوں کو غیر مسلح کرنے کے لئے زور لگانا شروع کردیا۔ اگر سرکاری ادارے مقامی لوگوں سے الجھنے کے بجائے ان سے مل کر حفاظتی مسائل کو آگے بڑھاتے تو ایسی صورتحال کبھی بھی پیش نہ آتی۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔