اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) اپوزیشن کی 3بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی ، پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے پانامہ پیپرزلیکس کی تحقیقات کیلئے وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں عدالتی کمیشن کے قیام کو مسترد کر دیا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے وزیراعظم نواز شریف کے قوم سے خطاب پرردعمل کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ
وزیراعظم نے پانامہ لیکس کاالزام ہمیں دیاہے ،جبکہ وزیراعظم پرالزام ہم نے نہیں پانامہ لیکس نے لگایاہے ،اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر ٹویٹ کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے کیاہمیں موردالزام ٹھہرایاہے ؟ ان پر الزام ہم نے نہیں پاناما لیکس نے لگا یا ہے ۔
پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری اعتزاز احسن نے پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے وزیراعظم کی جانب سے اعلان کردہ عدالتی کمیشن کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی کمیشن کچھ نہیں کرسکے گا ۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آزادانہ فرانزک آڈٹ ہونا چاہیے، سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن کو مسترد کرتے ہیں، 1992ء میں بھی الزامات کی تحقیقات کیلئے کمیشن بنایا گیا تھا۔انہوں نے کہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف استعفیٰ دے کر اپنی جگہ پر چوہدری نثار علی خان یا خواجہ آصف کو وزیراعظم بنادیں۔ پانامہ لیکس معاملے کی تحقیقات نہیں ہوئیں اور حالات خراب ہوئے تو ذمہ دار نواز شریف ہوں گے۔ اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ آف شور کمپنی کیلئے زور شور مچایا جارہا ہے کہ یہ غیر قانونی کاروبار نہیں ہے۔ میں کہتاہوں کہ آف شور کمپنیاں قانون کے مطابق غیر قانونی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکس واجب الادا ہے اس لئے ٹیکس سے بچنے کیلئے پیسہ وہاں رکھا جارہا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے 1994 ء سے 1996 ء تک کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا۔ حسین نواز کے باہر ملک موجود پیسوں کا حساب لینا چاہیے اور یہ کام ایف بی آر کا ہے۔ تحقیقاتی اداروں کو اب تک اس معاملے پر نوٹسز جاری کردینا چاہیے تھے۔ جبکہ نیب‘ ایف بی آر اور ایف آئی اے کو دھوکہ دیا جارہا ہے۔ وزیراعظم اگر غیر آئینی معاملات میں ملوث ہو تو آئینی عہدے پر رہنا آئین کے منافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف استعفیٰ دے کر اپنی جماعت مسلم لیگ کا وزیراعظم کسی دوسرے صوبے سے بنا دیں۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمان کو بچانے کیلئے اثاثوں کے معاملے پرکمیشن بنانا چاہیے۔امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے وزیر اعظم کے خطاب پر ردعمل میں کہا ہے کہ وزیر اعظم نے پاناما لیکس کے اصل سوال کہ ان کے خاندان نے آف شور کمپنیاں کیوں بنائیں کا کوئی جواب نہیں دیا ، اگر آف شور کمپنیاں اتنی ہی قانونی تھیں تو پھر ان کی پاکستان میں بھی اجازت دے دی جاتی۔نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ دنیا جانتی ہے کہ یہ کمپنیاں کالا دھن اور اثاثے چھپانے اور کک بیکس اور کمیشن لینے کیلئے استعمال ہوتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ زیب نہیں دیتا کہ حکمرانوں کی آل اولاد آف شور کمپنیوں کے ذریعے اپنا کاروبار چمکاتی رہے۔اگر حکمران خاندان یہ کام کرتے رہے تو پھر مادر وطن میں سرمایہ کاری کون کرے گا۔انہوں نے کہا کہ یہ کھلا تضاد ہے۔پانامہ لیکس کی جو تفصیلات اب تک سامنے آئی ہیں یا عنقریب آنے والی ہیں ان کے پیش نظر سپریم کورٹ کے کسی ریٹائرڈ جج کا نہیں ایک وسیع اور خود مختار ادارے کا کام ہے ، لہٰذا قوم وزیراعظم کے اعلان کردہ ریٹائرڈ جج کے کمیشن کو مسترد کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹے چھوٹے معاملات نیب کے حوالے کئے جارہے ہیں مگر اربوں اور کھربوں روپے کے معاملات کو اس کے سپرد کیوں نہیں کیا جاتا اگر حکمران واقعی اس معاملے کی تحقیقات میں مخلص ہیں تو پھر انہیں فوری طور پر اسے نیب کے حوالے کرنا چاہئے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔ حکومت نیب سے راہ فرار اختیار کرنا چاہتی ہے تو اس معاملہ کو موجودہ چیف جسٹس کے سپرد کرناچاہیے جو سینئر موسٹ تین رکنی عدالتی کمیشن بنائیں۔تحریک انصاف نے بھی وزیراعظم کی جانب سے پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے اعلان کردہ عدالتی کمیشن کومستردکردیا۔تحریک انصاف کے رہنمااسدعمرنے نجی ٹی وی سے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ دنیامیں جہاں جہاں الزامات لگتے ہیں وہاں تحقیقات ہوتی ہیں ،جواب دیکرخاموشی ممکن نہیں ہے ،تحقیقات توکرناپڑیں گی ۔تحریک انصاف کے رہنمانعیم الحق کاکہناہے کہ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں یہ بھی نہیں بتایاکہ کمیشن کتنے عرصے میں تحقیقات کریگا۔وزیراعظم کی تقریرسیاسی اورداستان گوئی پرمشتمل تھی ۔وزیراعظم نے تسلی بخش جواب نہیں دیاہے۔تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن حامد علی خان نے کہا کہ وزیراعظم کی طرف سے الزامات کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن کے قیام سے پہلے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل بہت ضروری ہے ۔انہوں نے کہا کہ عدالتی کمیشن بغیر ثبوت کے کیا کرسکتا ہے ؟ اس لئے ضروری ہے کہ پہلے حکومت کے اثر سے آزاد ایک ایسا ادارہ بنایا جائے جو غیر جانبداری سے شفاف تفتیش کرکے شواہد اکھٹے کرے اور پھر یہ حقائق عدالتی کمیشن میں پیش کئے جائیں اور عدالتی کمیشن ان ثبوتوں کی روشنی میں فیصلہ کرے، اس کے بغیر عدالتی کمیشن کا قیام بے مقصد ہوگا ۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ساق صدر اور جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود نے کہا ہے کہ وزیراعظم کی طرف سے عدالتی کمیشن کے قیام کا اعلان خوش آئند ہے ،لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالتی کمیشن کس قانون کے تحت بنایا جائے گا اور اس کمیشن ضروری ہے کہ وہ اس بات کا پتہ لگائے کہ وزیراعظم کے بیٹوں کو بیرون ملک پیسے کیسے بھیجا گیا اور کس کمیٹی کے ذریعے بھیجا گیا اور ٹیکس بھی اپنے ملک میں نہیں دیا گیا تو پھر یہ بہت اہم معاملہ ہے ، اب عدالتی کمیشن کو سارے امور کو سامنے رکھناہوگا تاکہ قوم مطمئن ہوسکے۔